اب آ گیا ہے جہاں میں تو مسکراتا جا
چمن کے پھول دلوں کے کنول کھلاتا جا
عدم حیات سے پہلے عدم حیات کے بعد
یہ ایک پل ہے اسے جاوداں بناتا جا
بھٹک رہی ہے اندھیرے میں زندگی کی برات
کوئی چراغ سر رہ گزر جلاتا جا
گزر چمن سے مثال نسیم صبح بہار
گلوں کو چھیڑ کے کانٹوں کو گدگداتا جا
رہ دراز ہے اور دور شوق کی منزل
گراں ہے مرحلۂ عمر گیت گاتا جا
بلا سے بزم میں گر ذوق نغمگی کم ہے
نوائے تلخ کو کچھ تلخ تر بناتا جا
جو ہو سکے تو بدل زندگی کو خود ورنہ
نژاد نو کو طریق جنوں سکھاتا جا
دکھا کے جلوۂ فردا بنا دے دیوانہ
نئے زمانے کے رخ سے نقاب اٹھاتا جا
بہت دنوں سے دل و جاں کی محفلیں ہیں اداس
کوئی ترانہ کوئی داستاں سناتا جا
غزل
اب آ گیا ہے جہاں میں تو مسکراتا جا
علی سردار جعفری