اب آ گئے ہو تو رفتگاں کو بھی یاد رکھنا
بچھڑتے لمحوں کی داستاں کو بھی یاد رکھنا
زمیں پہ اپنے قدم جما کر نہ بھول جانا
سروں پہ ٹھہرے اس آسماں کو بھی یاد رکھنا
ہوائے تشنہ کا چھین لینا مکین جاں کو
مگر لرزتے ہوئے مکاں کو بھی یاد رکھنا
سراب آخر مری ہی آنکھوں کا معجزہ ہے
یقیں کی منزل میں اس گماں کو بھی یاد رکھنا
اگرچہ خواہش کا عکس لفظوں میں آ گیا ہے
جو چشم تر میں ہے اس زباں کو بھی یاد رکھنا
تجھے خبر ہے کہ ابتدا بھی ہے انتہا بھی
جہان معنی میں درمیاں کو بھی یاد رکھنا
کبھی جو عیبوں کے تیر گھائل کریں نظر کو
تو خواہشوں کی جھکی کماں کو بھی یاد رکھنا

غزل
اب آ گئے ہو تو رفتگاں کو بھی یاد رکھنا
فیاض تحسین