اب آ بھی جاؤ، بہت دن ہوئے ملے ہوئے بھی
بھلا ہی دیں گے اگر دل میں کچھ گلے ہوئے بھی
ہماری راہ الگ ہے، ہمارے خواب جدا
ہم ان کے ساتھ نہ ہوں گے، جو قافلے ہوئے بھی
ہجوم شہر خرد میں بھی ہم سے اہل جنوں
الگ دکھیں گے، گریباں جو ہوں سلے ہوئے بھی
ہمیں نہ یاد دلاؤ ہمارے خواب سخن
کہ ایک عمر ہوئے ہونٹ تک ہلے ہوئے بھی
نظر کی، اور مناظر کی بات اپنی جگہ
ہمارے دل کے کہاں اب، جو سلسلے ہوئے بھی
یہاں ہے چاک قفس سے ادھر اک اور قفس
سو ہم کو کیا، جو چمن میں ہوں گل کھلے ہوئے بھی
ہمیں تو اپنے اصولوں کی جنگ جیتنی ہے
کسے غرض، جو کوئی فتح کے صلے ہوئے بھی
غزل
اب آ بھی جاؤ، بہت دن ہوئے ملے ہوئے بھی
عرفان ستار