آزمانے زیست کی جب تلخیاں آ جائیں گی
رو بہ رو ساری ہماری خامیاں آ جائیں گی
شرط یے ہے آپ کے ہاتھوں سجائیں گلدان میں
پھول کاغذ کے بھی ہوں تو تتلیاں آ جائیں گی
بے زباں رہنے کا سارا لطف ہی کھو جائے گا
زد میں آوازوں کے جب خاموشیاں آ جائیں گی
سوکھ جائیں گے سمندر جب بھی باہر کے کبھی
گھر میں میرے حسرتوں کی مچھلیاں آ جائیں گی
چلچلاتی دھوپ میں وہ جب بھی آئیں گے نظر
ایک پل میں شہر میں پھر سردیاں آ جائیں گی
آنکھ میں محبوب کی شدت سے دیکھو جھانک کر
شاعری کی سب تمہیں باریکیاں آ جائیں گی
یاد کر کے وصل کے پل کاٹ لیں گے زندگی
درمیاں جب بھی ہمارے دوریاں آ جائیں گی
اصل میں تو تب ہی ہوگا شوخؔ اس کا امتحاں
سامنے جب پیار کے مجبوریاں آ جائیں گی
غزل
آزمانے زیست کی جب تلخیاں آ جائیں گی
پروندر شوخ