آزادی میں رہنے والے دیکھو کیسے رہتے ہیں
اپنے سائے سے ڈرتے ہیں چونکے چونکے رہتے ہیں
ہرے بھرے پیڑوں کے اوپر جن کے ٹھور ٹھکانے تھے
اب وہ پنچھی شور زمیں پر دھوپ میں جلتے رہتے ہیں
ٹکراتے رہتے ہیں اکثر پتھر جیسے لوگوں سے
ہم دل والے کرچی کرچی آئینے سے رہتے ہیں
گہرائی سے موتی لانے والوں کا یہ حال ہوا
ساحل کی آغوش میں بیٹھے لہریں گنتے رہتے ہیں
لو کی زد میں رہنے والو ان کی اور نہ دیکھو تم
بادل کی ہم راہی میں جو اکثر بھیگے رہتے ہیں
آخر آخر خود بھی زخمی ہو کر ہوتے ہیں بد حال
اول اول زخموں کے سوداگر اچھے رہتے ہیں
کیسے کیسے میلے ہو کر واپس آتے ہیں ماہرؔ
لوگ نکلتے ہیں جب گھر سے اجلے اجلے رہتے ہیں

غزل
آزادی میں رہنے والے دیکھو کیسے رہتے ہیں
ماہر عبدالحی