EN हिंदी
آیا افق کی سیج تک آ کر پلٹ گیا | شیح شیری
aaya ufuq ki sej tak aa kar palaT gaya

غزل

آیا افق کی سیج تک آ کر پلٹ گیا

رشید قیصرانی

;

آیا افق کی سیج تک آ کر پلٹ گیا
لیکن عروس شب کا وہ گھونگھٹ الٹ گیا

دل میں بسی ہیں کتنی ترے بعد بستیاں
دریا تھا خشک ہو کے جزیروں میں بٹ گیا

اک شخص لوٹتے ہوئے کل تیرے شہر سے
رو رو کے اپنے نقش قدم سے لپٹ گیا

میں چل رہا ہوں خول بدن کا اتار کر
اب میرے راستے کا یہ پتھر بھی ہٹ گیا

پھیلی رہیں گی جھولیاں پلکوں کی کب تلک
آیا تھا جو امڈ کے وہ بادل تو چھٹ گیا

دشت نظر سے اتنے بگولے اٹھے رشیدؔ
اک مسکراتے چاند کا چہرہ بھی اٹ گیا