آیا تھا کوئی ذہن تک آ کر پلٹ گیا
لیکن بساط دل تو ہماری الٹ گیا
ہائے وہ سیل اشک جو پلکوں پہ تھم گیا
آنکھوں میں اپنی آج سمندر سمٹ گیا
پھیلائے ہم کھڑے رہے پلکوں کی جھولیاں
آیا امڈ کے ابر مگر وہ بھی چھٹ گیا
تیری گلی میں تیرا تصور کیے ہوئے
اک شخص آپ سائے سے اپنے لپٹ گیا
دشت حیات سے کوئی گزرا ہے اس طرح
گرد قدم سے وقت کا چہرہ بھی اٹ گیا
غزل
آیا تھا کوئی ذہن تک آ کر پلٹ گیا
ستیہ نند جاوا