آیا نہیں وہ جور کا خوگر تمام رات
تڑپا کیا مرا دل مضطر تمام رات
نیند اس کے حسن رخ کے تصور میں آئی تھی
دیکھا ہے برق طور کا منظر تمام رات
یہ راز مجھ پہ شمع کے انجام سے کھلا
کٹتی ہے ہجر یار میں کیوں کر تمام رات
اے ہم نفس نہ پوچھ شب ہجر کا عذاب
آنکھوں میں کاٹنی پڑی اکثر تمام رات
اک ہم نہ ان کی یاد میں جھپکا سکے پلک
اک وہ کہ محو بادہ و ساغر تمام رات
وقت سحر یہ جانا کہ جاگے ہیں ہم مگر
سوتا رہا ہمارا مقدر تمام رات
سینچا ہے آنسوؤں سے بہت نخل آرزو
لیکن ثمر نہ آ سکا جوہرؔ تمام رات

غزل
آیا نہیں وہ جور کا خوگر تمام رات
جوہر زاہری