آیا نہیں جو کر کر اقرار ہنستے ہنستے
جل دے گیا ہے شاید عیار ہنستے ہنستے
اتنا نہ ہنس دل اس سے ایسا نہ ہو کہ چنچل
لڑنے کو تجھ سے ہووے تیار ہنستے ہنستے
لے کر صریح دل کو وہ گل عذار یارو
ظاہر کرے ہے کیا کیا انکار ہنستے ہنستے
ہنس ہنس کے چھیڑ اس کو زنہار تو نہ اے دل
ہوگا گلے کا تیرے یہ ہار ہنستے ہنستے
ہنسنے کی آن دکھلا لیتا ہے دل کو گل رو
کرتا ہے شوخ یارو بے کار ہنستے ہنستے
جھنجھلا کے حال دل کا کہنا نہیں روا ہے
لائق یہاں تو کرنا انکار ہنستے ہنستے
دستار سرخ سج کر طرہ زری کا رکھ کر
آیا جو دل کو لینے دل دار ہنستے ہنستے
آنکھیں لڑا کے اس نے ہنس کر نگہ کی ایسی
جو لے گیا دل آخر خونخوار ہنستے ہنستے
آیا ہے دیکھنے کو تیرے نظیرؔ اے گل
دکھلا دے ٹک تو اس کو دیدار ہنستے ہنستے
غزل
آیا نہیں جو کر کر اقرار ہنستے ہنستے
نظیر اکبرآبادی