آیا ہے صبح نیند سوں اٹھ رسمسا ہوا
جامہ گلے میں رات کے پھولوں بسا ہوا
کم مت گنو یہ بخت سیاہوں کا رنگ زرد
سونا وہی جو ہووے کسوٹی کسا ہوا
انداز سیں زیادہ نپٹ ناز خوش نہیں
جو خال حد سے زیادہ بڑھا سو مسا ہوا
قامت کا سب جگت منیں بالا ہوا ہے نام
قد اس قدر بلند تمہارا رسا ہوا
زاہد کے قد خم کوں مصور نے جب لکھا
تب کلک ہاتھ بیچ جو تھا سو عصا ہوا
دل یوں ڈرے ہے زلف کا مارا وہ پھونک سیں
رسی سیں اژدہے کا ڈرے جوں ڈسا ہوا
اے آبروؔ اول سیں سمجھ پیچ عشق کا
پھر زلف سیں نکل نہ سکے دل پھنسا ہوا
غزل
آیا ہے صبح نیند سوں اٹھ رسمسا ہوا
آبرو شاہ مبارک