آیا بسنت پھول بھی شعلوں میں ڈھل گئے
میں چومنے لگا تو مرے ہونٹ جل گئے
لپکا مرے خیال کا کوندا کچھ اس طرح
چاروں طرف جو لفظ پڑے تھے پگھل گئے
رنگوں کے اہتمام میں صورت بگڑ گئی
لفظوں کی دھن میں ہاتھ سے معنی نکل گئے
جھونکے نئی رتوں کے جو گزرے قریب سے
بیتے دنوں کی دھول مرے منہ پہ مل گئے
سر پر ہمارے دھوپ کی چادر سی تن گئی
گھر سے چلے تو شہر کے منظر بدل گئے
غزل
آیا بسنت پھول بھی شعلوں میں ڈھل گئے
کمار پاشی