آوازوں سے جسم ہوا نم
جیسے اک نا بینا سا غم
ہونٹوں میں دریا کا قطرہ
چادر میں خوش بو جیسا خم
آئینوں کا رنگ ہمیشہ
ایسا جیسے ہونٹوں میں دم
کم ہوتی آنکھوں کے بھیتر
بینائی کے شیتل سرگم
سر اونچا اونچی تنہائی
قدموں میں بیگانہ آدم
دریا میں عریاں ہر لمحہ
باہوں کے اندر بہتا یم
نم چہرے خم ہوتے چادر
چہروں میں یکساں ہوتے سم
شب کی اک تنہا سیرت میں
لب کی ہر دستک ہوتی کم
اک دستک دستک کو سنتی
لوہو کا ساکت ہوتا خم
غزل
آوازوں سے جسم ہوا نم
صلاح الدین محمود