EN हिंदी
آوازوں کی دھند سے ڈرتا رہتا ہوں | شیح شیری
aawazon ki dhund se Darta rahta hun

غزل

آوازوں کی دھند سے ڈرتا رہتا ہوں

قیوم طاہر

;

آوازوں کی دھند سے ڈرتا رہتا ہوں
تنہائی میں چپ کو اوڑھ کے بیٹھا ہوں

اپنی خواہش اپنی سوچ کے بیج لیے
اک ان دیکھی خواب زمیں کو ڈھونڈھتا ہوں

سامنے رکھ کر گئے دنوں کا آئینہ
اپنے دھندلے مستقبل کو دیکھتا ہوں

ساحل ساحل بھیگی ریت پہ چلتا تھا
صحراؤں میں ٹانگیں توڑ کے بیٹھا ہوں

میری ساری سمتیں رات کے گھیرے میں
میں صبحوں کی زخمی آنکھ کا سپنا ہوں

اب تو سورج اوڑھ کے بیٹھوں گا قیومؔ
میں اک ٹھنڈے یخ دریا سے گزرا ہوں