آوازوں کے جنگل میں سنائی نہیں دیتا
وہ بھیڑ ہے چہرا بھی سجھائی نہیں دیتا
آفاق کی وسعت میں بکھرنے کو ہوں بے چین
کیوں جسم کے زنداں سے رہائی نہیں دیتا
وہ حق رفاقت کی روایت کا امیں ہے
وہ حق بھی تو اک بھائی کو بھائی نہیں دیتا
پڑ جائے اگر وقت تو اس دور میں کوئی
پربت تو بڑی بات ہے رائی نہیں دیتا
بارش میں بھی وہ بھیگتا رہتا ہے خوشی سے
آندھی میں بھی وہ پیڑ دہائی نہیں دیتا
بے مانگے بھی دے دیتا ہے شاہی جسے چاہے
اور مانگنے والے کو گدائی نہیں دیتا
وہ شخص جو رہتا ہے اثرؔ آنکھ میں ہر دم
حیرت ہے کہ خود مجھ کو دکھائی نہیں دیتا
غزل
آوازوں کے جنگل میں سنائی نہیں دیتا
محمد علی اثر