EN हिंदी
آوازوں کے جال بچھائے جاتے ہیں | شیح شیری
aawazon ke jal bichhae jate hain

غزل

آوازوں کے جال بچھائے جاتے ہیں

شکیل گوالیاری

;

آوازوں کے جال بچھائے جاتے ہیں
کھونے والے اب کیا پائے جاتے ہیں

اچھے اچھے لوگوں کی کیا پوچھتے ہو
یاد کئے جاتے ہیں بھلائے جاتے ہیں

ہنس ہنس کر جو پھول کھلائے تھے تم نے
اس موسم میں سب مرجھائے جاتے ہیں

سورج جیسے جیسے ڈھلتا جاتا ہے
اس کی دیواروں تک سائے جاتے ہیں

رشتوں پر اک ایسا وقت بھی آتا ہے
سلجھا سلجھا کر الجھائے جاتے ہیں

پھر اس نے راہوں میں پھول بچھائے ہیں
ہم جیسے پھر ٹھوکر کھائے جاتے ہیں

اپنے دامن پر ہیں شکیلؔ اپنے آنسو
لوگ مگر احسان جتائے جاتے ہیں