آواز کا اس کی زیر و بم کچھ یاد رہا کچھ بھول گئے
کتنا دل کش تھا میرا صنم کچھ یاد رہا کچھ بھول گئے
کس درجہ حسیں تھا وہ لمحہ جو قصۂ پارینہ ہے اب
جب اس کی نظر میں تھے بس ہم کچھ یاد رہا کچھ بھول گئے
گو ایسے لمحے کم آئے لیکن ہیں وہ میرا سرمایہ
کب کب وہ ہوا مائل بہ کرم کچھ یاد رہا کچھ بھول گئے
وہ روٹھنے اور منانے کا احساس ابھی تک باقی ہے
کیا کیا تھے اس کے قول و قسم کچھ یاد رہا کچھ بھول گئے
وہ خواب دکھاتا تھا مجھ کو میں اس پہ بھروسہ کرتا تھا
قایم نہ رہا وعدوں کا بھرم کچھ یاد رہا کچھ بھول گئے
آئے ہو ابھی جاتے ہو کہاں اس کا یہ کہنا ابھی آیا
کر دینا مری پھر ناک میں دم کچھ یاد رہا کچھ بھول گئے
یہ بھولی بسری یادیں ہیں سرمایۂ زیست مرا برقیؔ
کس طرح کروں میں اس کو رقم کچھ یاد رہا کچھ بھول گئے
غزل
آواز کا اس کی زیر و بم کچھ یاد رہا کچھ بھول گئے
احمد علی برقی اعظمی