آتش سوز محبت کو بجھا سکتا ہوں میں
دیدۂ پر نم سے اک دریا بہا سکتا ہوں میں
حسن بے پروا ترا بس اک اشارہ چاہئے
میری ہستی کیا ہے ہستی کو مٹا سکتا ہوں میں
یہ تو فرما دیجئے تکمیل الفت کی قسم
آپ کو کیا واقعی اپنا بنا سکتا ہوں میں
عشق میں روز ازل سے دل ہے پابند وفا
بھولنے والے تجھے کیونکر بھلا سکتا ہوں میں
ہم نفس مطلق بھی طوفان الم کا غم نہیں
بحر کی ہر موج کو ساحل بنا سکتا ہوں میں
بخش دی ہیں عشق نے اس درجہ مجھ کو ہمتیں
زخم کھا کر دل پہ قیصرؔ مسکرا سکتا ہوں میں
غزل
آتش سوز محبت کو بجھا سکتا ہوں میں
قیصر نظامی