آتے رہتے ہیں فلک سے بھی اشارے کچھ نہ کچھ
بات کر لیتے ہیں ہم سے چاند تارے کچھ نہ کچھ
ایک کافر کی مسیحائی کے دست فیض سے
مل رہے ہیں زخم کے دونوں کنارے کچھ نہ کچھ
رنگ ہر دیمک زدہ تصویر میں بھرتے رہے
اک تسلی کے لیے ہجراں کے مارے کچھ نہ کچھ
اک پرانا خط کئی پھولوں کی سوکھی پتیاں
اس بیاض زندگی میں ہیں سہارے کچھ نہ کچھ
ہے وہی قامت وہی مانوس سے نقش و نگار
ایسا لگتا ہے کبھی وہ تھے ہمارے کچھ نہ کچھ
وقت کے بے رحم سناٹوں میں بہتی زندگی
ہے صدا کی منتظر کوئی پکارے کچھ نہ کچھ

غزل
آتے رہتے ہیں فلک سے بھی اشارے کچھ نہ کچھ
یاسمین حبیب