آتے جاتے لوگ ہمیں کیوں دوست پرانے لگتے ہیں
چاہت کی اس حد پر یا رب ہم تو دوانے لگتے ہے
سننے والا کوئی اگر ہوتا کہتے دل کی باتوں کو
اس کے بنا تو آج ادھورے اپنے فسانے لگتے ہیں
پھر سے بہاریں لے کر آئی مہکی ہوئی سی یادوں کو
آ بھی جاؤ اب ملنے کے اچھے بہانے لگتے ہیں
دل کرتا ہے پھر سے دیکھوں کھوئے ہوئے اس منظر کو
پیاسی آنکھو کو وہ نظارے کتنے سہانے لگتے ہیں
خوشبو وہی ہے رنگ وہی ہے آج وفا کے پھولوں کا
آپ کیا آئے پھر سے چمن میں دن وہ پرانے لگتے ہیں
ٹوٹی ہوئی سی ایک کرنؔ ہے کافی اندھیرے والوں کو
گھر میں اجالا ڈھونڈھنے والے گھر کو سجانے لگتے ہے

غزل
آتے جاتے لوگ ہمیں کیوں دوست پرانے لگتے ہیں (ردیف .. ے)
کویتا کرن