آتے ہی جوانی کے لی حسن نے انگڑائی
اس سمت گری بجلی اس سمت قضا آئی
جس سمت سے گزرا ہوں آواز یہی آئی
دیوانہ ہے دیوانہ سودائی ہے سودائی
بھولے ہی سے آ جاؤ مہکی ہوئی راتیں ہیں
برسات کا موسم ہے ڈستی ہوئی تنہائی
سچائی کے دیوانے چڑھتے ہیں صلیبوں پر
صدیوں سے زمانے میں یہ رسم چلی آئی
آلام و مصائب کا چڑھتا ہوا دریا ہے
اے جوش توانائی اے جوش توانائی
اب کون سنے باتیں بہکے ہوئے واعظ کی
چلتے ہیں شفقؔ ہم تو وہ کالی گھٹا آئی

غزل
آتے ہی جوانی کے لی حسن نے انگڑائی
گوپال کرشن شفق