آتے آتے طرف میرے مڑ کے پھر کیدھر چلے
جان صاحب! بن تمہارے کھا کے غم ہم مر چلے
سجدے دے ناگھسنیاں کرتے ہیں تم سنتے نہیں
جو نہ کرنی تھی سماجت وہ بھی کر اکثر چلے
آدمی سے بت کہائے اب خدائی کا ہے عزم
ٹک کرو انصاف اپنی حد سے تم باہر چلے
دیکھ لیویں گے گزارے کے تئیں اب اور جا
دیکھا بھاری پتھر اس کو چوم سر سے دھر چلے
عاشقوں نے نام تیرا لے کیا قالب تہی
مرتے مرتے بھی تو تیرا ہی یہ سب دم بھر چلے
بزم میں تم کھل رہے تھے بیٹھے دیکھ ہم کو رک گئے
گر یوں ہی راضی ہو لو جی اٹھ ہم اپنے گھر چلے
کس کے آئے کس سے رنگ رلیاں کیا پیار اور چاہ
عشق کی بدنامی پیارے رکھ کے مجھ اوپر چلے
خضر کو شاباش اکتایا نہ اب تک اور ہم
زندگانی ایک دم بھر کی بھی کر دوبھر چلے
آہ و افغاں تو ہمارا کر رہا ہے زور شور
جوں بگولا یا ہو آندھی یا کوئی صرصر چلے
دیکھیں کس کی آہ کا اس پر اثر ہو اظفریؔ
ہم تو بھر مقدور، کر کتنا ہی شور و شر چلے
غزل
آتے آتے طرف میرے مڑ کے پھر کیدھر چلے
مرزا اظفری