آتش بجاں ہیں شدت سوز نہاں سے ہم
اس پر بھی کام لیں گے نہ آہ و فغاں سے ہم
دل پر جو بن گئی ہے کہیں کیا زباں سے ہم
گر کر تری نظر سے گرے آسماں سے ہم
انجام جستجو پہ وہی آ گیا مقام
آغاز جستجو میں چلے تھے جہاں سے ہم
دیر و حرم کو چھوڑ کر آئے تھے ہم یہاں
جائیں کہاں اب اٹھ کے ترے آستاں سے ہم
مانا کہ تیرا غم ہے غم راحت آفریں
لائیں ادا شناس الم دل کہاں سے ہم
کس کو خبر تھی عشق میں کس کو خیال تھا
کٹ جائیں گے تعلق کون و مکاں سے ہم
احساس رنگ و بو پہ بہاروں کا ہے سماں
مانوس ہیں شگفتگیٔ گل رخاں سے ہم
آزار غم وفور الم سوز ناتمام
خوش بخت و فیض یاب ہیں عمر رواں سے ہم
ایسا گھرے ہیں جادہ و منزل کے پھیر میں
کھوئے گئے ہیں اپنے ہی نام و نشاں سے ہم
کیسی تلاش کس کی تمنا کہاں کا شوق
الجھے ہوئے ہیں لذت درد نہاں سے ہم
اگ گمرہی جو راہ دکھائے تو کچھ بنے
منزل پر آ کے دور ہوئے کارواں سے ہم
ہو جائیں ان پہ مٹ کے سبک دوش اے رشیؔ
تنگ آ چکے ہیں زیست کے بار گراں سے ہم

غزل
آتش بجاں ہیں شدت سوز نہاں سے ہم
رشی پٹیالوی