EN हिंदी
آتا ہوں جب اس گلی سے سو سو خواری کھینچ کر | شیح شیری
aata hun jab us gali se sau sau KHwari khinch kar

غزل

آتا ہوں جب اس گلی سے سو سو خواری کھینچ کر

حسرتؔ عظیم آبادی

;

آتا ہوں جب اس گلی سے سو سو خواری کھینچ کر
پھر وہیں لے جائے مجھ کو بے قراری کھینچ کر

پہنچا ہے اب تو نہایت کو ہمارا حال زار
لا اسے جس تس طرح تاثیر زاری کھینچ کر

کوہ غم رکھتی ہے دل پر اس خرام ناز سے
خجلت رفتار کبک کوہساری کھینچ کر

کس کے شور عشق سے یوں روتا رہتا ہے سدا
نالہ و فریاد یہ ابر بہاری کھینچ کر

باندھوں ہوں وارستگی کا دل میں اپنے جب خیال
باندھ لے جائیں ہمیں زلفیں تمہاری کھینچ کر

کل جو تو گھر سے نہ نکلا اٹھ گیا کر کے دعا
صبح سے تا شام میں کیا انتظاری کھینچ کر

گالیاں دے مار لے یا قتل کر مختار ہے
لائی اب تو یاں مجھے بے اختیاری کھینچ کر

ساقیا پیہم پلا دے مجھ کو مالا مال جام
آیا ہوں یاں میں عذاب ہوشیاری کھینچ کر

حسرتؔ اس کی بزم کے جانے سے رکھ مجھ کو معاف
مفت میں روئے گا واں سے شرمساری کھینچ کر