EN हिंदी
آتا ہی نہیں ہونے کا یقیں کیا بات کروں | شیح شیری
aata hi nahin hone ka yaqin kya baat karun

غزل

آتا ہی نہیں ہونے کا یقیں کیا بات کروں

احمد رضوان

;

آتا ہی نہیں ہونے کا یقیں کیا بات کروں
ہے دور بہت وہ خواب نشیں کیا بات کروں

کیا بات کروں جو عکس تھا میری آنکھوں میں
وہ چھوڑ گیا اک شام کہیں کیا بات کروں

کیا بات کروں جو گھڑیاں میری ہم دم تھیں
وہ گھڑیاں ہی آزار بنیں کیا بات کروں

کیا بات کروں مرے ساتھی مجھ سے چھوٹ گئے
وہ لوگ نہیں وہ خواب نہیں کیا بات کروں

کیا بات کروں یہ لوگ بھلا کب سنتے ہیں
سب باتیں اندر ڈوب گئیں کیا بات کروں

کیا بات کروں اپنوں کی جتنی لاشیں تھیں
مرے سینے میں سب آن گریں کیا بات کروں

کیا بات کروں جو باتیں تم سے کرنی تھیں
اب ان باتوں کا وقت نہیں کیا بات کروں

کیا بات کروں کبھی پانی باتیں کرتا تھا
یہ دریا اس کی خشک زمیں کیا بات کروں

کیا بات کروں صحرا میں چاند اکیلا ہے
اور میرے ساتھ بھی کوئی نہیں کیا بات کروں

کیا بات کروں رضوانؔ کہ رونا آتا ہے
سب باتیں اس کی بات سے تھیں کیا بات کروں