آتا ہے کوئی لطف کا ساماں لیے ہوئے
ہشیار اے خیال پریشاں لیے ہوئے
اس سے نہ اضطراب محبت کو پوچھیے
جو جی رہا ہو درد کا احساں لئے ہوئے
بے چین کروٹوں سے یہ ظاہر ہے صاف صاف
پنہاں ہی دل میں ہے غم پنہاں لیے ہوئے
غزل
آتا ہے کوئی لطف کا ساماں لیے ہوئے
بلقیس بیگم