آسودگان ہجر سے ملنے کی چاہ میں
کوئی فقیر بیٹھا ہے صحرا کی راہ میں
پھر یوں ہوا کہ شوق سے کھولی نہ میں نے آنکھ
اک خواب آ گیا تھا مری خواب گاہ میں
اس بار کتنی دیر یہاں ہوں خبر نہیں
آ تو گیا ہوں پھر سے تری بارگاہ میں
پھر کار زندگی نے مجھے چھوڑنا نہیں
کچھ دن یہیں گزار لوں اپنی پناہ میں
یاروں نے آ کے جان بچائی مری کہ میں
خود سے الجھ پڑا تھا یوں ہی خواہ مخواہ میں
غزل
آسودگان ہجر سے ملنے کی چاہ میں
عابد ملک