EN हिंदी
آسودۂ متاع کرم بولتے نہیں | شیح شیری
aasuda-e-mata-e-karam bolte nahin

غزل

آسودۂ متاع کرم بولتے نہیں

انعام حنفی

;

آسودۂ متاع کرم بولتے نہیں
یعنی امین دولت غم بولتے نہیں

وارفتگان عجز کا عالم ہے دیدنی
سر ہے در نیاز پہ خم بولتے نہیں

کیوں بارگاہ ناز میں طاری ہے خامشی
کیا ساکنان باغ ارم بولتے نہیں

شکوہ طراز جبر محبت ہیں بوالہوس
اہل وفا خدا کی قسم بولتے نہیں

کس دن تھا امتحان وفا سے مجھے گریز
کب ڈگمگائے میرے قدم بولتے نہیں

ہے شرح کرب زیست کا اشکوں پہ انحصار
لیکن یہ ترجمان الم بولتے نہیں

انعامؔ ظلم و جور مسلسل کے باوجود
ہم ہیں فدائے لذت غم بولتے نہیں