آسودۂ محفل ابھی دم بھر نہ ہوا تھا
وہ کون سا تھا وار جو مجھ پر نہ ہوا تھا
چشم ستم ایجاد کی وسعت کے مقابل
یہ تیغ تو کیا چرخ ستم گر نہ ہوا تھا
پلکوں ہی پہ تڑپا وہ مرے سوز دروں سے
جو اشک ابھی بڑھ کے سمندر نہ ہوا تھا
جب تک کہ نہ دیکھی تھی نگاہوں کی کرامت
میں منحرف بادہ و ساغر نہ ہوا تھا
جب تک نہ تھا شہ رگ پہ پڑا سایۂ ابرو
میں واقف شیرینئ خنجر نہ ہوا تھا
کیا جانیں نظر آیا ہے کیا رنگ محبت
اتنا کبھی مضطر دل مضطر نہ ہوا تھا
اے تاجؔ عجب جوش اٹھا بہر کرم میں
اک حرف دعا بھی تو مکرر نہ ہوا تھا
غزل
آسودۂ محفل ابھی دم بھر نہ ہوا تھا
ظہیر احمد تاج