آسماں تجھ سے کنارا کہیں کرنا ہے مجھے
تھک گیا اڑتے ہوئے آج اترنا ہے مجھے
اپنے زخموں کی ہوا دی ہے کسی ساحل کو
اپنے اشکوں سے سمندر کوئی بھرنا ہے مجھے
چاند کی ناؤ ہوئی رات کے سیلاب میں غرق
پھر سے سورج کی کرن بن کے ابھرنا ہے مجھے
یاد آتا ہے بکھر جانا مری ہستی کا
اور اس زلف کا کہنا کہ سنورنا ہے مجھے
اب یہ لگتا ہے کہ میں خود میں سمٹ آیا ہوں
آ کے چھو لے کہ پھر اک بار بکھرنا ہے مجھے

غزل
آسماں تجھ سے کنارا کہیں کرنا ہے مجھے
شہزاد رضا لمس