آسماں سے صحیفے اترتے رہے
روشنی سے مگر لوگ ڈرتے رہے
زندگی اتنی مجبور سی ہو گئی
حادثے مجھ کو اشکوں سے بھرتے رہے
جن کو سب کچھ ملا ان کو سب کچھ ملا
جو بکھرتے رہے بس بکھرتے رہے
بن گئیں جب بھی ہم راز تنہائیاں
دل کی ہر بات ہم دل سے کرتے رہے
آتے جاتے نظر تجھ سے ملتی رہی
آئنہ زاویوں پر ابھرتے رہے
چند یادیں کھلیں اور مرجھا گئیں
بس ہواؤں میں ذرے بکھرتے رہے
آپ آتے رہے گیت گاتے رہے
گھر کے دیوار و در بھی سنورتے رہے
کچھ بھی ٹوٹا نہیں کچھ بھی بکھرا نہیں
حادثے راستوں سے گزرتے رہے
کب کیا ہم نے اوشاؔ کسی سے گلہ
خود میں جیتے رہے خود میں مرتے رہے
غزل
آسماں سے صحیفے اترتے رہے
اوشا بھدوریہ