EN हिंदी
آسماں سا مجھے گھر دے دینا | شیح شیری
aasman sa mujhe ghar de dena

غزل

آسماں سا مجھے گھر دے دینا

کالی داس گپتا رضا

;

آسماں سا مجھے گھر دے دینا
خاک ہو جاؤں تو پردے دینا

سامنا آج انا سے ہوگا
بات رکھنی ہے تو سر دے دینا

جانے کب سے ہے دھندلکوں کا شکار
نقطے کو شمس و قمر دے دینا

طالب وقت نہیں ہوں لیکن
موت تک چار پہر دے دینا

جو پتہ پوچھیں مرا تم ان کو
مٹھی بھر گرد سفر دے دینا

کل کا دن بے خبری کا ہوگا
سارے پرچوں میں خبر دے دینا

دے دیا ہے جو قلم ہاتھوں میں
اب سخن میں بھی اثر دے دینا

پھر رضاؔ جلوہ نما ہوتا ہے
من کے اندھوں کو نظر دے دینا