آسماں سا مجھے گھر دے دینا
خاک ہو جاؤں تو پردے دینا
سامنا آج انا سے ہوگا
بات رکھنی ہے تو سر دے دینا
جانے کب سے ہے دھندلکوں کا شکار
نقطے کو شمس و قمر دے دینا
طالب وقت نہیں ہوں لیکن
موت تک چار پہر دے دینا
جو پتہ پوچھیں مرا تم ان کو
مٹھی بھر گرد سفر دے دینا
کل کا دن بے خبری کا ہوگا
سارے پرچوں میں خبر دے دینا
دے دیا ہے جو قلم ہاتھوں میں
اب سخن میں بھی اثر دے دینا
پھر رضاؔ جلوہ نما ہوتا ہے
من کے اندھوں کو نظر دے دینا

غزل
آسماں سا مجھے گھر دے دینا
کالی داس گپتا رضا