EN हिंदी
آسماں مل نہ سکا دھرتی پہ آیا نہ گیا | شیح شیری
aasman mil na saka dharti pe aaya na gaya

غزل

آسماں مل نہ سکا دھرتی پہ آیا نہ گیا

عمران حسین آزاد

;

آسماں مل نہ سکا دھرتی پہ آیا نہ گیا
زندگی ہم سے کوئی ٹھور بنایا نہ گیا

آسماں مجھ سے میاں حجرے میں لایا نہ گیا
شاعری چھوڑ دی مفہوم چرایا نہ گیا

نوکری کی، لکھی نظمیں، سکوں پایا نہ گیا
شہر دل تجھ کو کسی طور بسایا نہ گیا

گھر کی ویرانیاں رسوا ہوئیں بے کار میں ہی
مجھ سے بازار میں بھی وقت بتایا نہ گیا

جوش میں ڈھا تو دی رشتے کی عمارت لیکن
دونوں سے آج تلک ملبہ ہٹایا نہ گیا

خون کے داغ نہ آ جائیں مرے لہجے میں
اس لیے غزلوں کو اخبار بنایا نہ گیا

دکھ نہ جائے تو بچھڑتی ہوئی بس اس ڈر سے
مجھ سے آنکھوں کو کوئی خواب دکھایا نہ گیا

اپنا حصہ بھی تو مانگا ہے زمیں سے میں نے
آسماں یوں ہی مرے سر پہ گرایا نہ گیا

جو تری یاد کے پنچھی نہ رکے کیا ہے عجب
عمر بھر دل میں تو تجھ کو بھی بٹھایا نہ گیا

ذات مذہب کہ زباں نام اسی کے تو ہیں سب
خود کو جس قید سے تا عمر چھڑایا نہ گیا

خاک دریا کے کناروں کو ملاؤں گا میں
خود کو ہی آج تلک خود سے ملایا نہ گیا

میرا ایمان ہوا خرچ جسے پانے میں
کیا غضب ہوگا جو اس شے کو بچایا نہ گیا