آسماں کو زمیں بناتے ہیں
ہم گماں کو یقیں بناتے ہیں
ہو جہاں ساکنان شہر وفا
آشیاں ہم وہیں بناتے ہیں
محو غفلت ہیں اہل دنیا سب
آخرت اہل دیں بناتے ہیں
وہ تو اہل نظر بلا شک ہے
ہم جسے ہم نشیں بناتے ہیں
ہم نگیں ساز تو نہیں لیکن
کنکروں کو نگیں بناتے ہیں
عقل و علم و ہنر کے سانچے میں
زندگی خود ہمیں بناتے ہیں
قاتلوں اور بے ایمانوں کو
اپنا حاکم نہیں بناتے
بغض و کینہ حسد غرور و نفاق
آدمی کو لعیں بناتے ہیں
فاصلوں اور سرحدوں کی سدا
دل کے رشتے قریں بناتے ہیں
تم تو عارفؔ بڑے ہی احمق ہو
ریت کے گھر کہیں بناتے ہیں

غزل
آسماں کو زمیں بناتے ہیں
سید محمد عسکری عارف