آسماں کھول دیا پیروں میں راہیں رکھ دیں
پھر نشیمن پہ اسی شخص نے شاخیں رکھ دیں
جب کوئی فکر جبیں پر ہوئی رقصاں میں نے
خواب آنکھوں میں رکھے آنکھوں پہ پلکیں رکھ دیں
درمیاں خامشی پہلے تو نہ آئی تھی مگر
باتوں باتوں میں ہی اس نے کئی باتیں رکھ دیں
اس نے جب توڑ دئے سارے تعلق مجھ سے
کھینچ کر سینہ سے پھر میں نے بھی سانسیں رکھ دیں
میری تنہائی سے تنگ آ کے مرے ہی گھر نے
آج تھک ہار کے دہلیز پہ آنکھیں رکھ دیں

غزل
آسماں کھول دیا پیروں میں راہیں رکھ دیں
دھیریندر سنگھ فیاض