EN हिंदी
آسماں کا سرد سناٹا پگھلتا جائے گا | شیح شیری
aasman ka sard sannaTa pighalta jaega

غزل

آسماں کا سرد سناٹا پگھلتا جائے گا

راجیندر منچندا بانی

;

آسماں کا سرد سناٹا پگھلتا جائے گا
آنکھ کھلتی جائے گی منظر بدلتا جائے گا

پھیلتی جائے گی چاروں سمت اک خوش رونقی
ایک موسم میرے اندر سے نکلتا جائے گا

میری راہوں میں حسیں کرنیں بکھرتی جائیں گی
آخری تارا پس کہسار ڈھلتا جائے گا

بھولتا جاؤں گا گزری ساعتوں کے حادثے
قہر آئندہ بھی میرے سر سے ٹلتا جائے گا

راہ اب کوئی ہو منزل کی طرف لے جائے گی
پاؤں اب کیسا پڑے خود ہی سنبھلتا جائے گا

اک سماں کھلتا ہوا سا اک فضا بے داغ سی
اب یہی منظر مرے ہم راہ چلتا جائے گا

چھو سکے گی اب نہ میرے ہاتھ طوفانی ہوا
جس دیے کو اب جلا دوں گا وہ جلتا جائے گا