آسماں ہے سمندر پہ چھایا ہوا
اس لیے رنگ پانی کا نیلا ہوا
وقت ندی کی مانند بہتا ہوا
ایک لمحہ مگر کیوں ہے ٹھہرا ہوا
تھا کوئی تو جو دہلیز پر دھر گیا
رات جلتی ہوئی دن دہکتا ہوا
گمشدہ شہر میں ڈھونڈھتا ہوں کسے
ایک اک شکل کو یاد کرتا ہوا
دھوپ جنگل میں پھر کھو گیا ہے کوئی
چاند تاروں کو آواز دیتا ہوا
دھوپ اور لو بھری تھیں فضائیں مگر
اس کی یادوں کا موسم تھا بھیگا ہوا
صورت حال عنبر عجب چیز ہے
اس نے دریا کہا میں کنارہ ہوا
غزل
آسماں ہے سمندر پہ چھایا ہوا
برجیش عنبر