آسماں گردش میں تھا ساری زمیں چکر میں تھی
زلزلے کے قہر کی تصویر ہر منظر میں تھی
آپسی ٹکراؤ نے آخر نمایاں کر دیا
ایک چنگاری جو برسوں سے دبی پتھر میں تھی
میں اکیلا مر رہا تھا گھر مرا سنسان تھا
رونق خانہ رفیق زندگی دفتر میں تھی
کر دیا تھا بیوگی کے کرب نے گرچہ نڈھال
جلتی بجھتی آنچ سی اک برف کی چادر میں تھی
ایک ہی فقرے نے سارا جسم چھلنی کر دیا
دھار ایسی طنزیہ الفاظ کے خنجر میں تھی
خود نمائی کم لباسی سب نے مل کر چھین لی
قاتلانہ اک ادا جو حسن کے تیور میں تھی
روک لیتی جو پرندے کو قفس میں اے عتیقؔ
آرزو ایسی نہ کوئی بھی دل مضطر میں تھی
غزل
آسماں گردش میں تھا ساری زمیں چکر میں تھی
عتیق مظفر پوری