آسماں ایک کنارے سے اٹھا سکتی ہوں
یعنی تقدیر ستارے سے اٹھا سکتی ہوں
اپنے پاؤں پہ کھڑی ہوں تجھے کیا لگتا تھا
خود کو بس تیرے سہارے سے اٹھا سکتی ہوں
آنکھیں مشتاق ہزاروں ہیں مگر سوچ کے رکھ
تیری تصویر نظارے سے اٹھا سکتی ہوں
راکھ ہو جائے محبت کی حویلی پل میں
اک تباہی میں شرارے سے اٹھا سکتی ہوں
میں اگر چاہوں تو جینے کی اجازت دے کر
زندگی تجھ کو خسارے سے اٹھا سکتی ہوں
اسم پڑھنے کا ارادہ ہو تو فرصت میں سحرؔ
میں تجھے دل کے شمارے سے اٹھا سکتی ہوں
غزل
آسماں ایک کنارے سے اٹھا سکتی ہوں
سدرہ سحر عمران