EN हिंदी
آسماں بھی پکارتا ہے مجھے | شیح شیری
aasman bhi pukarta hai mujhe

غزل

آسماں بھی پکارتا ہے مجھے

سیما شرما میرٹھی

;

آسماں بھی پکارتا ہے مجھے
آشیاں بھی لبھا رہا ہے مجھے

عکس آخر کہاں گیا میرا
آئنہ کیوں چھپا رہا ہے مجھے

مجھ میں سورج اگا کے چاہت کا
وہ سویرا سا کر گیا ہے مجھے

غم کی بارش سے بن گئی دریا
اک سمندر بلا رہا ہے مجھے

صبح کی سرد سی فضا تھی میں
غم کا سورج تپا رہا ہے مجھے

میرے اندر بھنور بھی ہے کوئی
تجھ سے مل کر پتہ چلا ہے مجھے

میں ردا ہوں جو بے وفائی کی
کیوں مسلسل تو اوڑھتا ہے مجھے

خوبصورت سے گل کا پیکر ہوں
اپنے انجام کا پتا ہے مجھے

ایک ایسی غزل ہوں میں سیماؔ
ہر کوئی گنگنا رہا ہے مجھے