EN हिंदी
آشنائی ہی سہی اپنی طلب کوئی تو ہو | شیح شیری
aashnai hi sahi apni talab koi to ho

غزل

آشنائی ہی سہی اپنی طلب کوئی تو ہو

خالد جمال

;

آشنائی ہی سہی اپنی طلب کوئی تو ہو
اس دیار غیر میں بھی ہم نسب کوئی تو ہو

شور گھر تک آ گیا ہے کوچہ و بازار کا
کچھ تو ایسا ہو یہاں پہ مہر لب کوئی تو ہو

کرب تنہائی لیے آخر کہاں تک جائیے
حادثہ ہی ہو اگرچہ بے سبب کوئی تو ہو

ساز کے ٹوٹے ہوئے تاروں کو پھر سے جوڑئیے
نغمۂ خوش رنگ یا سوز طرب کوئی تو ہو

شاخ سے ٹوٹے ہوئے پتے بہت مایوس ہیں
ایک چنگاری سہی ان کا بھی اب کوئی تو ہو