EN हिंदी
آشنا نا آشنا یاروں کے بیچ | شیح شیری
aashna na-ashna yaron ke beach

غزل

آشنا نا آشنا یاروں کے بیچ

اسحاق اطہر صدیقی

;

آشنا نا آشنا یاروں کے بیچ
منقسم ہوں کتنی دیواروں کے بیچ

سانس بھی لیتے نہیں کیا راستے
کیا ہوا بھی چپ ہے دیواروں کے بیچ

ایک بھی پہچان میں آتی نہیں
صورتیں کتنی ہیں بازاروں کے بیچ

دیکھنا ہے کس کو ہوتی ہے شکست
آئنہ ہے ایک تلواروں کے بیچ

کیسی دھرتی ہے کہ پھٹتی بھی نہیں
رقص مجبوری ہے مختاروں کے بیچ

اپنا اپنا کاسۂ غم لائے ہیں
ہے نمائش سی عزاداروں کے بیچ

ہے انہی سے رونق بزم حیات
پھول کھلتے ہیں جو انگاروں کے بیچ

کیا شعاع مہر آتی ہے کبھی
آسماں بر دوش دیواروں کے بیچ

ہم بھی اطہرؔ میرؔ صاحب کے طفیل
شعر کہتے ہیں طرح داروں کے بیچ