آشنا کوئی باوفا نہ ملا
کشتئ دل کا ناخدا نہ ملا
جائے مرہم نمک چھڑکنا تھا
زخم کھانے کا کچھ مزا نہ ملا
اس کے کوچے میں ایسے بھولے ہم
گھر کے جانے کا راستہ نہ ملا
دل دیا جس کو رنج ہے پایا
کوئی دل دار باوفا نہ ملا
زندگی تلخ ہو گئی اپنی
تجھ سے ملنے کا کچھ مزا نہ ملا
دیکھ لی ہم نے دوستی تیری
ہم سے اب آنکھ بے وفا نہ ملا
کچھ اجارہ نہیں بنے نہ بنے
کیا شکایت ہے دل ملا نہ ملا
آسماں پر دماغ یار رہا
کبھی جھک کر وہ مہ لقا نہ ملا
بوسۂ لب کی تم سے کیا امید
ایک بیڑا بھی پان کا نہ ملا
ڈھونڈھتی ہیں کنشت میں جا کر
شیخ کعبے میں تو خدا نہ ملا
ایک اک کو پلائے دو دو جام
درد بھی ہم کو ساقیا نہ ملا
نقل کب اصل کی مقابل ہے
اس کے چہرے سے آ بنا نہ ملا
نظر آئی جو وہ دہن تو کہوں
مجھ کو عنقا کا آشیانہ ملا
جن کو تکیہ تھا اپنی مسند پر
ان کو دیکھا کہ بوریا نہ ملا
بحرؔ نکلے تھے ڈھونڈھنے اس کو
ایسے کھوئے گئے پتا نہ ملا
غزل
آشنا کوئی باوفا نہ ملا
امداد علی بحر