آشنا کتنا زباں کو بے زبانی سے کیا
زندگی کرنے کو کیا کچھ زندگانی سے کیا
موسم گل میں کیا ملبوس بننے کا عمل
بے لباسی کا عمل برگ خزانی سے کیا
کون ہے وہ جس نے بنجر خشک خطوں کا علاج
دیکھتے ہی دیکھتے اک سادہ پانی سے کیا
صبح کے جاگے مسافت سے تھکے دریا نے پھر
شام ہوتے ہی تعلق کم روانی سے کیا
یہ وہی تھا کیسے پہچانا اسے مدت کے بعد
میں یہ پل بھر میں اسی کی اک نشانی سے کیا
روگ تھی شاہیںؔ زمیں کی تنگئ پیہم مجھے
یہ مداوا میں نے بس نقل مکانی سے کیا
غزل
آشنا کتنا زباں کو بے زبانی سے کیا
جاوید شاہین