آشنا جو مزہ کا ہوتا ہے
اپنے حق میں وہ کانٹے بوتا ہے
شیخ جی ایک روز مجھ کو اثرؔ
لگے کہنے عبث تو روتا ہے
ان بتوں کے لئے خدا نہ کرے
دین و دل یوں کوئی بھی کھوتا ہے
نہ تجھے دن کو چین ہے اک آن
ایک دم رات کو نہ سوتا ہے
میں کہا خوب سن کے اے ناداں
جا مشیخت کو کیوں ڈبوتا ہے
تو ہے ملاں تری بلا جانے
عاشقی میں جو کچھ کہ ہوتا ہے
غزل
آشنا جو مزہ کا ہوتا ہے
میر اثر