آشیانہ مرا برباد نہ کر اے صیاد
باغ سے تو مجھے آزاد نہ کر اے صیاد
قید تو نے کیا گلچیں نے مرا دل توڑا
اس پہ کہتا ہے کہ فریاد نہ کر اے صیاد
پھول کمھلا گئے نغموں کا زمانہ نہ رہا
پچھلی باتوں کو تو اب یاد نہ کر اے صیاد
اک نہ اک روز تو گلشن میں بہار آئے گی
خاک میری ابھی برباد نہ کر اے صیاد
پھر یہ کہتا ہوں کہ میں شادؔ ہوں ناشاد نہ ہوں
آشیانہ میرا برباد نہ کر اے صیاد
غزل
آشیانہ مرا برباد نہ کر اے صیاد
مرلی دھر شاد