عاشقوں کو اے فلک دیوے گا تو آزار کیا
دشمن جاں ان کا تھوڑا ہے دل بیمار کیا
رشک آوے کیوں نہ مجھ کو دیکھنا اس کی طرف
ٹکٹکی باندھے ہوئے ہے روزن دیوار کیا
آہ نے تو خیمۂ گردوں کو پھونکا دیکھیں اب
رنگ لاتے ہیں ہمارے دیدۂ خوں بار کیا
مرغ دل کے واسطے اے ہم صفیرو کم ہے کیوں
کچھ قضا کے تیر سے تیر نگاہ یار کیا
چل کے مے خانے ہی میں اب دل کو بہلاؤ ذرا
عیشؔ یاں بیٹھے ہوئے کرتے ہو تم بیگار کیا
غزل
عاشقوں کو اے فلک دیوے گا تو آزار کیا
عیش دہلوی