عاشقی کے آشکارے ہو چکے
حسن یکتا کے پکارے ہو چکے
اٹھ گیا پردہ جو فی مابین تھا
من و تو کے تھے اشارے ہو چکے
ہے بہار گلشن دنیا دو روز
بلبل و گل کے نظارے ہو چکے
چل دیئے اٹھ کر جہاں چاہے وہاں
ایک رنگی کے سہارے ہو چکے
یاس سے کہہ دیں گے وقت قتل ہم
ہم تو اے پیارے تمہارے ہو چکے
واصل دریا جو قطرہ ہو گیا
غیریت کے تھے پکارے ہو چکے
گلشن ہستی میں دیکھی تھی بہار
اوج پر جو تھے ستارے ہو چکے
ورطۂ دریا کا غم جاتا رہا
غوطہ کھاتے تھے کنارے ہو چکے
نیک و بد سے تم کو مرکزؔ کیا غرض
دور دشمن تھے تمہارے ہو چکے

غزل
عاشقی کے آشکارے ہو چکے
یاسین علی خاں مرکز