عاشق کی جان جاتی ہے اس بانکپن کو چھوڑ
اے بت خدا کے واسطے اپنے چلن کو چھوڑ
بلبل نہ رحم آئے گا صیاد کو کبھی
ہے جان اگر عزیز تو تو اس چمن کو چھوڑ
اس کا یہی طریق رہا عاشقوں کے ساتھ
اے دل بس اب شکایت چرخ کہن کو چھوڑ
صحرا کی سمت پاؤں بڑھے جاتے ہیں دل آ
وحشت پکارتی ہے کہ حب الوطن کو چھوڑ
بسنے کو چل تو دشت خزاں دیدہ میں شباب
گل زار میں بہار گل و نسترن کو چھوڑ
غزل
عاشق کی جان جاتی ہے اس بانکپن کو چھوڑ
شباب