EN हिंदी
عاشق جو اس گلی کا بھی مر کر چلا گیا | شیح شیری
aashiq jo is gali ka bhi mar kar chala gaya

غزل

عاشق جو اس گلی کا بھی مر کر چلا گیا

خان جانباز

;

عاشق جو اس گلی کا بھی مر کر چلا گیا
دنیا سے ایک اور قلندر چلا گیا

غربت کا اپنے حال تجھے اور کیا کہوں
اک دن تو اک فقیر بھی اٹھ کر چلا گیا

فرعون اپنے دور کا زندہ ہے آج بھی
دنیا سمجھ رہی تھی ستم گر چلا گیا

چاقو پہ ہے نشان کسی بے گناہ کا
قاتل تو ہاتھ میں لئے خنجر چلا گیا

وہ تنکا جوڑ کر کے نشیمن جو تھا بنا
بستی کی آگ میں وہ مرا گھر چلا گیا

امید کر چکا تھا نئے سال سے بہت
اک اور زخم دے کے دسمبر چلا گیا

لیلیٰ سے جو ملا تھا وہ پتھر لئے ہوئے
جانبازؔ اپنے شہر سے باہر چلا گیا