عاشق ہوئے ہیں جب سے ہم خود سے جا رہے ہیں
بے درد ناصحوں نے ناحق ستا رہے ہیں
فصل بہار میں ہم کیوں کر نہ ہوں دوانے
گل چاک کر گریباں دھومیں مچا رہے ہیں
پھر آونے کا وعدہ تم کر گئے ہو ہم سے
پیارے تمہاری رہ پر آنکھیں لگا رہے ہیں
اے ابر تو برستا اور ہی طرف چلا جا
امڈے ہیں غم کے بادل سو ہم تھما رہے ہیں
دل کھول ٹک جو برسیں ارض و سما ڈباویں
مژگان تر کے ظالم وہ ابر چھا رہے ہیں
یہ عشق نیں ہے برعکس جا دیکھ لے چمن میں
آ خوش نین عدم سے آنکھیں دکھا رہے ہیں
غزل
عاشق ہوئے ہیں جب سے ہم خود سے جا رہے ہیں
عشق اورنگ آبادی